میں آئینہ ہوں دکھلائوں گا داغ چہرے کے،
جسے برا لگے وہ سامنے سے ہٹ جائے۔
> دور حاضر کی اکثر و بیشتر خانقاہ اور مسانیدِ ارشاد پر براجمان سجادگان حضرات کو انکے مریدین مجددِ دوران کا خطاب فرماتے ہیں، اسطرح پھر یُوں کہئے کہ ہر شہر میں کئی ایک خانقاہیں اور انکے مسند نشین مُجددین جلوہ فرما ہوتے ہیں۔ بلکہ جہاں جہاں مسند نشین ہیں وہاں وہاں مجددین ہیں۔
پوچھنا یہ تھا کہ:
۱۔ `طاغیہ کو صرف ایک مجدد الف ثانی ٹکراگیا اور اسکے نو ساخت دین الٰہی کو دین اسلامی کی حقانیت سے مغلوب کر دکھایا۔`
• اب کیا وجہ ہے کہ آج اتنے مجددوں کی کثرت کے باوجود پھر بھی اسلامی، دینی، مذہبی، اخلاقی تہذیب کے رواج کی قلت ہے!
۲۔ `پھر ہر صدی کے سابقہ مجددین کے پیشِ نظر سنت کا احیاء مقصود رہا۔`
• اب کیا وجہ ہے کہ آجکے مجددوں کو سنت سے زیادہ اپنی خانقاہ کی شناخت اور بقا پیش نظر رہا!
۳۔ `سابقہ صدی کے سارے مجددین اسوقت کے ایک مجدد اعظم کی پیروی کرکے اسکو پیشوا مانتے۔ اور اعلائے کلمۃ الحق کےلئے اسکی رہبری و رہنمائی میں کوشاں رہتے۔`
• اب کیا وجہ ہے کہ ایک ہی شہر کے اور ایک ہی سلسلے کے پیران، سجادگان ایک دوسرے کا ہی ساتھ دینے کے بجائے ایک دوسرے پر برتری ظاہر کرتے ہیں!
کہیں اسکی وجہ یہ تو نہیں کہ سابقہ دور میں اسوقت کے ہر صاحبِ مسند کو مجدد کے منصب کی سنَد بانٹی نہیں جاتی تھی!
کیا یہ وجہ تو نہیں کہ اس مخلص دور میں مخلصین کے پیش نظر اپنی خانقاہ و سلسلے کی برتری سے زیادہ احقاق حق کیلئے باہمی کوشاں رہتے اور ابطال باطل سے یک جاں ٹکراتے اور لڑ جاتے! کیوںکہ سبکا مطمع نظر صلاح و فلاح تھا نہ کہ خانقاہ یا درسگاہ۔
پھر کیا یہ وجہ تو نہیں کہ اسوقت مجدد کے منصب کیلئے طمع و حرص کسی کو نہیں تھی بلکہ جو واقعی چنیدہ ہوتا اسکی علامات کےمد نظر مریدین کے بجائے امت کے مخلصین اس مجدد کا اعلان فرماتے!
`انتباہ`: اس فقیر پر تقصیر نے یہاں تعوّذ پڑھا ہے اگر کوئی اس سے چِڑتا ہے تو وہ خودکو دیکھے کہاں کھڑا ہے!
کیا تماشہ ہے کہ سب مجھ کو برا کہتے ہیں،
اور سب چاہتے ہیں میری طرح کا ہونا۔
مؤرخہ: ۲۴ محرم ۱۴۴۷ھ
راقم✍: فقیرِ قادری، گدائے نوری، اسیرِ ازہری
کلیم رضاألقادری رضوی ازہری حفظه الله القوی۔
H
جواب دیںحذف کریں